یوں تو قدرت نے پاکستان کو حسن کی بے پناہ دولت سے نوازاہے ۔ صوبہ
سندھ میں دریا نے سندھ کا
کنارا ہو یا مکلی کے تاریخی مقامات، صحرائے تھر میں ابھرے ہوئے سورج کا حسن ہو یا بحرہ عرب میں ڈوبتے ہوئے چاند کا منظر، بلوچستان کے چٹیلے سرمئی پہاڑ ہوں یا حنّا جھیل کا شفاف پانی ، خیبر پختونخوا کے درّے ہوں یا پہاڑی سلسلے ، صوبہ پنجاب کے میدانی
علاقوں کی ہریالی ہو یا پانچ دریاوں کے سنگم کا ملاپ یا پھر صوبہ گلگت بلتستان کے برفیلے آبشار اور وادی کشمیر کے خوبصورت نظارے، غرض یہ کہ قدرت نے پاکستان کو ہر
چیز ہر نعمت دل کھول کر عطا کی ہے۔ اب ہم انسانوں پر منحصر
ہے کہ ہم اس کی کس طرح قدر کریں۔
صوبہ پنجاب کے صدر مقام لاہور سے 75 کلو میٹر کے فاصلے پر بین الاقوامی حیثیت کا حامل ایک مصنوعی جنگل چھانگا مانگا کے نام سے موسوم ہے جسے دنیا کا سب سے بڑا مصنوعی جنگل قرار دیا جا تا ہے جس کا رقبہ 10 125ایکڑ پر محیط ہے۔ اس جنگل کو 1866ء میں لگانا شروع کیا گیا تھا۔ اس کا شمار قدیم ترین شہری جنگلوں میں کیا جاتا ہے۔ اس کا مقصد ریلوے انجنوں کے لئے ایندھن فراہم کرنا تھا۔ اس خطے میں قدرتی طور پر جنڈ، کیکر، بیری اور ون وغیرہ کے درخت اگے ہوئے تھے۔ 1888ء تک جنگل کے بیشتر حصے میں شیشم کے درخت اور کچھ عرصہ بعد توت، سمبل، بکا ئن، پاپلر ، سفیدے ، سرس اور بانس کے درخت بھی لگائے گئے۔ یہ جنگل چھانگا مانگا نامی دوڈاکوؤں کے نام سے موسوم ہے جو 18 ویں صدی کے دوران اس علاقے کو اپنی پناہ گاہ کے طور پر استعمال کیا کرتے تھے۔ 1888ء سے 1936ء کے درمیانی عرصے میں پنجاب کی بڑھتی ہوئی آبادی کو ایندھن کی فراہمی اور لکڑی کی مانگ پوری کرنے کے لئے شیشم لگانا مقصود تھا۔
شروع شروع میں جنگل کو عارضی کنویں کھود کر پانی فراہم کیا گیا۔ بعد ازاں نہری نظام شروع ہونے پر ا سے باقاعدہ سب سے پہلانہری جنگل ہونے کا اعزاز ملا۔ 1936ءکے بعد وسطی ایشیاء اور چین سے ہجرت کر کے آنے والے پرندوں، جن میں تلیر سرفہرست ہے، کی وجہ سے یہاں شہتوت کے درخت اگائے گئے جو باقاعدہ فصلکی طرز پر لگائے گئے تھے۔ سیالکوٹ میں کھیلوں کے سامان میں استعمال ہونے والی کل لکڑی کا بیشتر حصہ چھانگامانگاکے شہوت اور دیگر لکڑی سے ہی پورا کیا جاتا ہے اس کے علاوہ ملک بھر میں پھیلی ہوئیپلائی وڈ،چپ بورڈ،ون بورڈ اور ماچس بتانے والی فیکٹریوں کی ضرورت کیلکڑی جس میں شیشم، سمبل اور پاپلر ہیں،اسی جنگل سے پوری ہورہی ہیں۔
1960ء میں اسے قومی پارک بنادیا گیا۔ سیاحوں کی تفریح کے لئے مہتابی جھیل، چڑیا گھر کشتیاں، سوئمنگ پول، لکڑی سے بنائے ہٹ ، مہتاب محل، جھولاپل ، گراسی پلاٹ، کرکٹ کا میدان اور چلڈرن پارک کے علاوہ دیگر عمارتیں بھی بنائی گئیں جن میں . ریسٹ ہاؤس اور افزائش نسل کے لئے بریڈنگ سینٹر وغیرہ شامل ہیں ۔ اس جنگل میں ہرن، نیل گائے اور مور و دیگر جانور پائے جاتے ہیں جن کا شکار ممنوع ہے۔ سب سے دلچسپ یہاں بھاپ سے چلنے والے وہ ریلوے انجن ہیں جواب کہیں اور نہیں پائے جاتے اور جن کا استعال اب کہیں نہیں ہوتا۔ صرف چھانگامانگا ہی میں چل رہے ہیں-
ہر سال لاکھوں کی تعداد
میں ملکی اور غیرملکی سیاحوں کو مہتابی جھیل تک لے جانے کے لئے فوریسٹ ٹرین چلائی
جاتی ہے جاتی ہے جبکہ پورے جنگل میں ایندھن اور لکڑی کی سپلائی کے لئے 24 کلومیٹر لمبی پٹری بچھی ہوئی ہے۔ فوریسٹ پارک کا کل رقبہ
153ایکڑ ہے جس میں بچوں کے جھولے، کرکٹ اور فٹبال کے میدان سیاحوں کی دلچسپی کے لئے بنائے گئے ہیں۔ پارک میں ایک خوبصورت
کیفے ٹیریا بھی ہے جہاں سے اشیائے خوردونوش خریدی جاسکتی ہیں۔ یہاں کا ماحول عام
جنگل کے ماحول سے ذرا مختلف ہے کیونکہ اسے ایک پلاننگ کے تحت بنایا گیا ہے، پھر
بھی درختوں کے جھنڈ اور طرح طرح کے پرندے دیکھنے کو ملتے ہیں ۔ تفرینیا ٹرین کی
گزرگاہ کے قریب بڑے بڑے احاطوں میں نیل گائے، خرگوش، پہاڑی بکرے، مور اور سیاہ ہرن
کے علاوہ دیگر جانور رکھے گئے ہیں۔ چھانگا مانگا کے ریسٹ ہاؤس میں رات گزارنے کا
اپنا ہی مزا ہے۔ ایڈونچر
پسند حضرات کے لئے یہ
جنگل میں منگل سے کم نہیں ۔ نڈر اور دلیر قسم کے نوجوان رات کو جنگل کی سیر کرنے نکل پڑتے
ہیں۔ یوں وہ اپنے طور پر پرخطر مہم سرانجام دیتے ہیں۔ جہاں کئی مقامات پر مختلف
جانوروں کی آواز یں ان کے قدم روک دیتی ہیں ۔ جنگل کی سیر کرنے کے لئے صبح سویرے کا وقت انتہائی مناسب ہے۔ جہاں قدر تی ماحول کو دیکھ کر انسان اپنے رب کا شکر ادا کرتا
ہے کہ اس نے ہمیں کیسی کیسی نعمتوں سے نوازا ہے۔ لاہور سے باہر کے رہنے والے جب
بھی لاہور کی سیر کا پروگرام بنائیں تو اپنے شیڈول میں چھانگا مانگا کی سیرکوسر
فہرست رکھیں ورنہ آپ حسین قدر تی جنگلات کے نظاروں سے محروم رہیں گے۔
تبصرے
ایک تبصرہ شائع کریں
if you have any query feel free to ask