اجرک سندھ کی ثقافت میں اہم مقام رکھتا ہے۔ اس کی تاریخ 5 ہزار برس قدیم ہے۔ موہن جو دڑو سے ملنے والی اشیاء میں بادشاہ کے مجسّمے بھی شامل ہیں جن کے خدوخال پر اجرک کے نقوش ثبت ہیں جس سے معلوم ہوتا ہے کہ اس زمانے میں بھی اجرک کا استعمال کیا جاتا تھا۔ یہ فن پانچ ہزار سال سے بھی زیادہ قدیم اور آج تک سندھ کے لوگوں میں مقبول و معروف ہے۔ کوئی تہوار ہو شادی بیاہ کی تقریب ہو, ملکی مہمان یا غیرملکی ہوا جرک پیش کرنا سندھ کے لوگوں کی روایت کا حصہ رہی ہے۔ اجرک کو عربی زبان میں "اندک" کہا جاتا ہے۔ اس کا استعمال مختلف طریقوں سے کیا جاتا ہے۔ اجرک کی پگ، چادراوڑھنے کی شال، بیڈ شیٹ، رومال، کشن کور، ملبوسات اور دوسری کئی اشیاء تیار کی جاتی ہیں۔ سندھ میں اجرک کے کئی کارخانے ہیں۔ آج کل نقلی اجرکیں تیار کرنے کا رجحان بھی بڑھ رہا ہے۔ اصلی اجرک سازی کے ہنر منداب خال خال ہی نظر آتے ہیں ۔ حیدر آباد، ٹنڈوآدم میں اجرکیں تیار کرنے کے کئی ایسے کارخانے ہیں جن میں افرادی محنت کی بجائے مشینوں کے ذریعے ڈیزائن اور پرنٹ کیے جاتے ہیں ۔
نئی ٹیکنالوجی کے ذریعے اجرک تیار کرنے میں بھی جدت اختیار کی جارہی ہے۔ اسے مزید خوشنما اور خوبصورت بنانے کی خاطر طرح طرح کے ڈیزائن تیار کئے جاتے ہیں ۔ فیشن کا جدید رجحان اپنانے والی خواتین بھی اجرک کے ملبوسات تیار کرتی ہیں۔ آج کل اجرک سے بنے ملبوسات کی تیاری، ہالا، کراچی، حیدرآباد وغیرہ کے کارخانوں میں کی جاتی ہے۔ مختلف تقریبات میں خصوصا سندھ کی خواتین میں اجرک کے ملبوسات ذوق وشوق سے پہنے جاتے ہیں نقلی اجرکوں کی فروخت نے اجرک سازی کے ہنر مندوں کو تقریبا ختم کر دیا ہے۔ ان ہنرمندوں کو ختم ہونے سے بچانے کے لئے حکوتی سطح پر بہتر حکمت عملی کی ضرورت ہے۔ نسل درنسل یہ ہنر مند اپنی کاریگری منتقل کرتے آئے ہیں۔ آئندہ آنے والی نسلیں اس ہنر کو سیکھنے سے اس لئے بھی انکاری ہیں کہ ان کی حوصلہ افزائی نہیں کی جاتی۔ ہاتھ سے تیار کی گئی اجرکوں کے مقابلے میں نقلی اجرکوں کی فروخت کم داموں میں کی جاتی ہے جس کی وجہ سے ان ہنر مندوں کی بنائی ہوئی اجرکوں کی طلب میں کمی آرہی ہے۔ یہ ماہر کاریگر اب مجبور ہو کر آہستہ آہستہ دوسرے کام کر کے اپنے خاندانوں کےروزگارکےلئےکوشاں ہیں۔
[1].jpeg)
تبصرے
ایک تبصرہ شائع کریں
if you have any query feel free to ask