کھیوڑہ(پاکستان) کی کان- دنیا کے اہم ترین نمک کا ذخیرہ


 نمک کی کانیں اسلام آباد سے 200، لاہور سے 240 کلو میٹر اور پنڈ دادن خان سے محض پانچ منٹ کی مسافت پر کھیوڑہ کا مشہور قصبہ ہے جہاں پر پنجاب اور ملک کے دیگر علاقوں سے لوگ خاص طور پر اتوار کے روز یہاں پہنچتے ہیں اس کی وجہ شہرت نمک کے پہاڑ ہیں جنہیں ہر کوئی دیکھنا چاہتا ہے موٹر وے کے انٹرچینج سے کھیوڑہ کی جانب جانا بہت آسان ہو گیا ہے کوہستانی نمک کی اس وادی کو پوٹھو ہار کا علاقہ بھی کہا جا تا ہے-

جب آپ کھیوڑہ کے قصبے میں داخل ہوتے ہیں تو آپ کو اکثر دکانوں میں نمک کی بنی ہوئی خوبصورت اشیا ء نظر آتی ہیں ہر دکان میں مختلف رنگوں کے خوبصورت لیمپ، پیپر ویٹ، شو پیس وغیرہ رکھے نظر آتے ہیں نمک کی بنی ہوئی اشیاء اور لیمپوں سے ایسی کرنیں نکلتی ہیں جو دمہ کے مرینوں کیلئے بے حد فائدہ مند ہوتی ہیں ان اشیاء کی مخصوص شعائیں کمروں کی آلودگی کم کرنے میں بھی بہت مدد دیتی ہیں-


 سیاحوں سے کان کے اندر جانے کیلئے چالیس روپے فیس لی جاتی ہے پھر سیاح ایک چھوٹی سی ریل کار کے ذریعے کان میں جاتے ہیں کان کے دروازے پر ایک بورڈ لگا ہوا ہے اس پر اس جگہ کی مختصر تاریخ لکھی ہوئی ہے اس کے مطا بق کھیوڑہ میں نمک کی در یافت 326 قبل مسیح میں ہوئی جب دریائے جہلم کے کنارے سکندر اعظم اور راجہ پورس کے مابین جنگ لڑی گئی سکندر اعظم کی فوج کے گھوڑے اس علاقے میں چرنے پھرنے کے دوران پتھروں کو چاٹتے دیکھے گئے جس سے یہاں پرنمک کی کانوں کا انکشاف ہوا جب سے اب تک یہاں سے نمک نکالا جا رہا ہے یہ دنیا کا اہم ترین نمک کا ذخیرہ ہے جو دریائے جہلم سے شروع ہوتا ہے اور کالا باغ پر ختم ہوتا ہے کھیوڑہ ایک ارضیائی عجائب گھر بھی ہے یہاں پر کروڑوں سال پرانے آثار پائے جاتے ہیں-

1849ء میں انگریزوں نے نمک نکالنے کا کام سائنسی طر یقے پر شروع کیا- 1872ء میں ایک مشہور انگر یز انجینر ڈاکٹر وارتھ نے نمک کے ذخائر تک براہ راست رسائی کیلئے بڑی کان کی کھدائی شروع کروائی جو اب تک جاری ہے 50 فیصد نمک نکال کر 50 فیصد ستون کے طور پر چھوڑ دیا جاتا ہے جس سے کان کی مضبوتی قائم رہتی ہے  یہاں پر تقریبا دو کروڑ بیس لاکھ ٹن نمک کے ذخائر موجود ہیں۔ نمک کی کان میں بعض لوگ اندھیرے میں چمکتے ہوئے نمک کو دیکھ کرخوفزدہ ہو جاتے ہیں ریل کے رکتے ہی ایک گائیڈ ٹارچ ہاتھ میں لیکرسیاحوں کو کان کے اندر ہونے والے کام اور اعداد وشمار بتا تا جا تا ہے نمک کی کان میں آپ کو ہیلمٹ پہنے ہوئے مزدور اپنا کام کرتے دکھائی دیتے ہیں- 

 کان میں آڑے ترچھے راستوں پر چلتے ہوئے جب آپ تھک جائیں تو ایک چھوٹی سی کینٹین آجائے گی یہاں آپ اپنی مرضی کی اشیاء کھا پی کر اور سستا کر پھر آگے چل پڑتے ہیں کان کے اندر تھوڑی تھوڑی دیر بعد آپ کونمک کے تالاب ملتے ہیں اگر آپ چاہیں تو اس میں تیر سکتے ہیں مزے کی بات یہ ہے نمکین فرش کا کہ یہ تالاب 50 فٹ گہرے ہیں مگر کوئی اس میں ڈوب نہیں سکتا- ایک موڑ پر نمک کی اینٹوں سے بنی ہوئی نہایت دلکش مسجد نگاہوں کو خیرہ کر دیتی ہے رنگ برنگی روشنیوں سے منور اس مسجد میں نماز پڑھنا بہت لطف دیتا ہے سجدے میں جاتے ہی نمکین فرش کی مہک ایک عجیب سا لطف دینے لگتی ہے۔


 به کان دنیا کی دوسری بڑی کان ہے جو سب سے پرانی ہے ٹنل کے اندر ٹیمپریچر تقریبا 18 ڈگری رہتا ہے سردیوں میں خوشگوار گرم اور گرمیوں میں ٹھنڈا ہوتا ہے ٹنل میں تازہ ہوا کیلئے روشن دان بھی بنائے گئے ہیں ان کے اندر ایک بڑا سا ہال بھی ہے جس کو اسمبلی ہال کہتے ہیں ایک مینار پاکستان، شیش محل اور ڈاک خانہ بھی ہے جہاں سے کان میں کام کرنے والے اپنی ڈاک اور منی آرڈر وغیرہ ارسال کرتے اور وصول کر تے ہیں ۔ چٹانوں اور پہاڑوں کی تشکیل کے وقت ان گنت جانوروں کی لاشیں مٹی میں محفوظ ہو کر پتھر (رکاز ) بن گئی ہیں 1976ء میں امریکی ماہرین نے اس علاقے میں ایک انسانی جبڑ ے کا رکاز تلاش کیا جو ایک کروڑ بیس لاکھ سال پرانا ہے اس کا نام پوٹھو ہار مانس رکھا گیا ہے ظہور انسان کے بارے میں مختلف آرا ہیں ماہرین کا خیال ہے کہ قدیم انسان کا ظہور دنیا کے کئی علاقوں میں بیک وقت ہوا اس سلسلے میں پوٹھو ہار کا نام بھی لیا جاتا ہے یہاں کی  باقیات سے ثابت ہوتا ہے کہ یہاں قدیم انسان آباد تھے جو جنگلی جانوروں کے ساتھ رہتے تھے۔ 

تبصرے