پاکستانی خواتین

 

عہد ساز سیاسی رہنما

ایک نامعلوم ادیب نے کبھی لکھا تھا کہ "عورت کو آپ کیا سمجھتے ہیں یہ جتنے فیصلے ایک صبح میں کرتی ہے اتنے فیصلے سپریم کورٹ شائد تین برسوں میں کہیں کرتی ہو" اور ذرا غور کیجئے تو صبح کا ناشتہ، دفتر یا اسکول جانے کی تیاری، کھانے میں کیا پکے گا؟ سبزی، گوشت یا مصالحوں میں کیا چیز کہاں سے لینی یا کتنی مقدار میں استعمال کرنی ہے اور گھر کی صفائی ستھرائی، ملازم اگر ہیں تو ان سے کام لینے کے لئے احکامات اور بیرونی سرگرمیوں مثلا اپنی ملازمت میں چند اہم فیصلے کرنے کے ساتھ ساتھ کچھ خواتین نے سیاسی رہنمائی اور عوا می خدمت کا بیڑا بھی اٹھایا۔ کچھ حادثاتی طور پر ایوان سیاست میں آئیں اور قابل ذکر سیاستدان بن کر تاریخ میں امر ہوئیں۔ تحریک آزادی کے ابتدائی دور میں بی اماں، بیگم مولانا علی جوہر بیگم حسرت موہانی وغیرہ ایسی خواتین ہیں جو کسی ادارے کی سند کے بغیر اپنی فہم و فراست، اعتماد، حب الوطنی، دوراندیشی کے تحت خواتین کے وسیع حلقے کی رہنمائی کرتی رہیں۔ ان کا مقا بلے شائد آج کی ڈگری یافتہ خواتین بھی نہ کر پائیں۔

 

ما در ملّت محترمہ فاطمہ جناح 

قائد اعظم محمد علی جناح کی ہمشیرہ محترمہ فاطمہ جناح کا عالمی اور تاریخی کردار نا قابل فراموش ہے۔ برصغیر میں دنیا بھر کی آزادی کی لہر زور پکڑ رہی تھی تو فاطمہ جناح نے نہ صرف مسلم خواتین میں سیاسی شعور بیدار کیا بلکہ انہیں سیاسی اور سماجی میدان میں بھی اپنے روشن خیالات سے مستفید کیا ۔ بقول قائداعظم "میری بہن فاطمہ جناح میرے لئے مدد اور حوصلہ افزائی کا سرچشمہ ہے"۔ سیاسی کشمکش کے اس دور میں انہوں نے مسلم طالبات اور خواتین کی انجمن سازی کی ۔ 



اپنے بھائی کے ساتھ مل کر جدوجہد آزادی میں حصہ لیا۔ ان کی شخصیت میں قائد اعظم کی مدبرانہ شخصیت کا عکس نظرآ تا ہے۔ پاکستان کے عوام سے ان کی یہ محبت ہی تھی کہ جب پاکستان میں جنرل ایوب خان کا مارشل لا آیا اور اس کے بعد صدارتی انتخاب کا اعلان کیا گیا اور پھر 1964ء کے انتخابات میں ہزار دھاندلیوں کے باوجود فاطمہ جناح نے کراچی، ڈ ھا کا اور چٹاگانگ میں صدر ایوب کو ہرادیا ضعیفی کے باوجود ان کا دل کبھی خوفزدہ نہ ہوا۔ 9 جولائی 1968 کو ان کا انتقال پاکستانی قوم کے لئے سانحے سے کم نہیں تھا۔


بیگم رعنا لیاقت علی خان

 قیام پاکستان کے بعد خواتین کی بیداری اور خاندانوں کے استحکام کے لئے آل پاکستان وومن ایسوسی ایشن یعنی APWA کا کردار اہم رہا۔ اپوا کی روح رواں اور بانی بیگم رعنا لیاقت کی کیا فعال شخصیت نے خواتین کو آگے بڑھنے کا حوصلہ دیا۔ بھارت سے آنے والے مہاجرین کے لئے جو لاکھوں کی تعداد میں تھے۔ ان کی بحالی اور امداد کی ۔ اپوا کی رضا کار خواتین اورلڑکیوں کو مہاجرین کی بحالی اور امداد کے لئے مصروف عمل کیا۔ ساتھ ہی بے شمار چھوٹے صنعتکاروں اور ہنر مندوں کی مالی امداد کر کے ان کو باعزت زندگی گزارنے کے مواقع فراہم کئے۔ 



انہیں پہلی مسلمان سفیر ہونے کا اعزاز بھی حاصل ہوا۔ اور اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے 7ویں اجلاس میں بحیثیت پہلی مسلم خاتون کے شرکت کا اعزاز بھی حاصل ہوا۔ آپ پہلی خاتون گورنر سندھ اور پہلی خاتون چانسلر ( سندھ یونیورٹی )بھی ہیں ۔ انہوں نے قیام پاکستان کے بعد ہندوستان سے کوئی چیز پاکستان لانا گوارا نہیں کیا، بلکہ اپنی ذاتی کوٹھی بھی پاکستانی سفارتخانے کے لئے وقف کردی۔

محترمہ بےنظیر بھٹو

پاکستان کی عہد ساز خواتین میں ایک اہم نام بے نظیر بھٹو کا بھی ہے جنہیں دنیا کی سب سے کم عمر اور دنیائے اسلام کی پہلی مسلمان خاتون وزیراعظم ہونے کا اعزاز حاصل ہوا۔ بینظیر بھٹو نے اپنے والد کی قائم کردہ پیپلز پارٹی کے پلیٹ فارم سے اپنے والد ذوالفقار علی بھٹوکے مشن کوجاری رکھنے کے لئے سیاست میں قدم رکھا اور عوامی لیڈر کے طور پر عزم جدوجہد شروع کی۔ 



بے نظیر بھٹو نے مسلم دنیا میں دو بار وزیر اعظم منتخب ہوکراہم مقام حاصل کیا۔ اپنے ملک اور قوم کی خدمت کا جذبہ اپنی پوری آب و تاب سے جاری تھا کہ سفاک حملہ آوروں نے انہیں موت کے گھاٹ اتار دیا۔ اپنے نام کی طرح بے نظیر نے اپنی طرف منڈلاتے خطروں سے باخبر ہونے کے باوجود اور اپنی عوام کی محبت اور خدمت کر تے ہو ئے 27 دسمبر 2007 کو جام شہادت نوش کیا اور اس طرح پاکستان کی تاریخ ساز خاتون کا انتہائی اہم باب تمام ہوا۔

تبصرے